بہت کم لوگ جانتے ہیں 1849 میں پورا چج دوآب ایک ضلع پر مشتمل تھا جو گجرات تھا
اُس ضلع گجرات کی حدود جموں کے بارڈر سے لیکرضلع جھنگ کے اس مقام تک تھی جہاں دریائے چناب اور جہلم دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں،لیکن انگریزوں نے مارچ 1849 میں پنجاب پر اپنی حکومت جمانے کے تین ماہ بعد ہی ضلع گجرات کے رقبے کو بہتر انتظامات کے پیشِ نظر کم کرنا شروع کر دیاجبکہ تقسیمِ ہند کے بعد پنجاب حکومت نے اس رقبے کو توڑ کر مزید اضلاع بنائے۔لیکن یہ ضلع 460 قبل مسیح میں اتنا بڑا نہیں تھا
جب راجہ بچن پال نے اس ضلع کی بنیاد رکھی تھی بچن پال نے اسے ’اودہ نگری‘ کا نام دیا جس کا مطلب سنسکرت میں ـ ’خوشبو والا شہر‘ ہے،460 قبل مسیح میں گجرات کی تعمیرکی جگہ کاصحیح تعین نہیں کیا جاسکتا لیکن بشمول قلعہ گجرات کے یہ ایک قدیم تاریخی شہر تھا جو مختلف مذاہب، خاص طور پر بدھ مت،اور ریاستوں کا حصہ رہا جس میں راجہ پورس اور انڈویونانی ریاستیں قابلِ ذکر ہیں اس موضوع پر میں پھر کبھی لکھوں گاگورجاںجو سگالہ(موجودہ سیالکوٹ) کے راجہ بہدرسین عرف رسالو کی بیوہ تھی نے گجرات پر118عیسوی میں حکومت کی اور اس کا نام بدل کر ’گورجاں نگری‘ رکھ دیا یعنی ’گورجاں کی نگری یا شہر‘۔ بعد میں گورجاں نگری کو ’گوراں نگری‘ بھی کہا جاتاتھا
گوراں نگری غیر ملکی حملہ آوروں کے حملوں کا شکار رہی اور طویل عرصے تک غیر آباد رہی یہاں تک کہ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1587-88 میں اس شہر کوآباد کیا اور ایک قلعہ بناکراس کا کنٹرول گجروں کو دے دیا۔ گجرات کا نام ’گجرات اکبرآباد‘ رکھا گیا جبکہ جاٹوں کودوآبہ کے بالائی حصے پر اپنی پسند کا علاقہ آباد کر کے اپنی مرضی کا نام رکھنے کا اختیار دے دیا گیا جس پر جاٹوں نے ’ہیرات‘ کے نام سے پرگنہ آباد کیا جس میں کنجاہ اورا س کے گردونواح کا علاقہ شامل تھا۔ لیکن اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ لفظ ’گجرات‘ گجروں اور جاٹوں کے ناموں کا امتزاج ہے اگر ایسا ہوتا تو اکبر کے دور میں اس کے ثبوت ملتے جو موجود نہیں ہیں۔ اس دلچسپ موضوع پرالگ سے تحقیقی تحریر لکھوں گا
16ویں صدی میں مغل دور سے لے کر 19ویں صدی تک گجرات کے کچھ دیہاتوں یا شہروں کے نام درج ذیل تھے
کلاچور کو جموں راجگان کے راجہ چندر گپت عرف راجہ کلا چند نے تقریباً 300 قبل مسیح میں تعمیر کیا تھا کلاچور اس وقت 5 سے 6 رہائشی بستیوں پر مشتمل تھاجس میں بادشاہ کے لیے ایک محل اور ایک قلعہ بھی شامل تھا،
صابوال کا پرانا نام چکری تھا کھریرہ کبھی چک احمد کے نام سے مشہور تھا،کھاریاں کے شہر ڈنگہ کی بنیاد مقیم خان کھٹانہ نے رکھی تھی اور گاؤں منگووال کی بنیاد اکبر کے دور میں چندو وڑائچ نے رکھی تھی
جسونت سنگھ برہمن نے شہنشاہ اکبر کے دور میں ہیلان کی بنیاد رکھی اور صداقت مند خان نے اپنے بیٹے قادر خان کی یاد میں قادر آباد کی بنیاد رکھی بہلول پور کو بہلول لودھی نے 1464 میں آباد کیا تھا جبکہ قلعہ دار کا پرانا نام کوٹلہ قلعہ دار تھا اور کھٹالہ کبھی کھٹالہ گھمن کے نام سے جانا جاتاتھا
کنجاہ کو 753 عیسوی میں تور قبیلے کے راجہ خصال کے بھتیجے کنج پال نے آباد کیا تھا تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیر تیمور کے دور میں جیٹھو وڑائچ اس کا بانی تھا۔ گجرات شہر کا گاؤںکالرہ ایک زمانے میں دیوان سنگھ کی جاگیر تھا جسے کالرہ دیوان سنگھ کہا جاتا تھا
لکھنوال کی بنیاد آدم وڑائچ نے بادشاہ اکبر کے دور میں رکھی تھی اور اس کا نام اپنے دادا لکھن کے نام پر رکھا تھا۔ یہ جلال پور جٹاں کے جنوب مشرق میں چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے موجودہ مقام سے دو کلومیٹر جنوب مشرق میں تھا اور شیر شاہ سوری نے اسے تباہ کیا تھا
بمطابق ایک روایت کہ جلال پور صوبتیاں کے بانی لکھو صوبتی نے اس گاؤں کو آباد کیا اور کاکا مل مہتہ کی بیٹی سے شادی کی اور اس کی بیوی کے جہیز میں 84 گاؤں شامل تھے جن میں لکھنوال گاؤں بھی تھا کاکا مل کی ایک اولاد سکھ دیو تھی جو شہنشاہ اورنگزیب کے سامنے پیش ہوا اور اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ شہنشاہ نے اس کا نام بدل کر اقبال مند رکھ دیا
ایک اور روایت کے مطابق ایک مقامی راجہ رام چندر کے تین بیٹے رام یا ہریا، لکھن اور بہل تھے جنہوں نے اپنے ناموں پر گاؤں بہلپور، ہر یہ وال یا رمکے اور لکھنوال کو آباد کیا،گاؤں رنگانوالہ کا پرانہ نام قاسم پور لکھو تھا، جلال پور صوبتیاں کا پرانا نام لکھو تھاجوصوبتیوں کی ملکیت میں تھا
گاؤں دھو ریہ کبھی دھوریہ سردار قمر سنگھ کے نام سے مشہور تھا جبکہ مکیانہ کبھی مریدہ مکیانہ تھا۔گاؤںباٹھ کبھی فرخ سیار پور گلاب کے نام سے مشہور تھا۔ گلاب رائے وداون نے مغل شہنشاہ فرخ سیار کے دور حکومت میں گاؤں فرخ سیار خریدا جس نے 1713 سے 1719 تک انڈیا پر حکومت کی۔گاؤں گنجہ کا پرانا نام اورنگ شاہ پور زربخش تھا۔کٹھالہ کا پرانہ نام کٹھالہ گھمن تھا اور میانی شہر کبھی لُون میانی تھا