یہ رہائشگاہ پاکستان کے سیاسی میدان میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرنیوالے گجرات کے سیاسی گھرانے چوہدری برادران کی ہے جسے لوگ ظہور پیلس کے نام سے جانتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ عیدالاضحی کے اس تہوار پر گجرات کی سیاسی تاریخ میں یہاں سناٹا اور ویرانی چھائی ہوئی ہے جس سے عیاں ہوتا ہے کہ سیاست میں کبھی وقت ایک جیسا نہیں رہتا اس گھر کے درودیوار کبھی خوشیوں قہقہوں سے نہ صرف گونجتے تھے بلکہ ملکی سیاست میں راج کرنیکی وجہ سے یہاں سے صوبے اور وفاق کی بیوروکریسی سمیت کئی اداروں کو احکامات دئیے جاتے تھے
بلکہ کئی آفسیران سیاستدان فیض یاب ہونے کیلئے یہاں حاضری دیا کرتے لیکن وقت کے دھارے نے لمحوں میں ہر چیز بدل ڈالی بے رحم سیاسی کھیل نے خونی رشتوں کو ایکدوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا سیاسی سوج بوجھ اور چوہدری برادران کیساتھ گہری وابستگی رکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بچپن سے لیکر ملکی خاندانی امور کے اہم فیصلے اکٹھے کرنیوالے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے اپنے اولاد کے الگ الگ سیاسی راستوں کے انتخاب نے انہیں ایکدوسرے سے جدا کر ڈالا
چوہدری شجاعت حسین اپنی ناسازی طبعیت کے باعث ماضی کی طرح سیاسی میدان میں خود کو متحرک نہیں رکھ پائے ایسی صورتحال میں انکے دو سپوت عرصہ دراز سے اپنے والد کی آبائی سیٹ پر این اے 69 پی پی 30اور 31 پر سیاسی میدان میں اترنے کیلئے بیتاب تھےلیکن نہ صرف خاندانی ناراضگیوں کے باعث بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری ، ایم این اے وسابق وفاقی وزیر چوہدری مونس الہیٰ کی بیرون ملک موجودگی کے باعث انہیں گجرات کا پورا سیاسی میدان خالی ملا
مگر ناز و نخروں میں پرورش پانیوالے دونوں بھائی جنہیں پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے وضلعی صدر چوہدری سلیم سرور جوڑا نے کرن، ارجن جوڑی کا لقب دے رکھا ہےسال 2023 کی عید الفطر کے بعد انہوں نے دوبارہ گجرات کا رخ کرنا گوارہ ہی نہیں کیا
حالانکہ جتنا سنہری موقع انہیں اپنی گرفت اپنے پورے ضلع اور ریجن میں مضبوط کرنیکا ملا ہے شاید ہی دوبارہ کبھی مل پائے کیونکہ چوہدری سالک حسین کو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سمیت وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی نہ صرف موجودہ سیاسی صورتحال میں بے پناہ قربت حاصل ہے
وہیں وہ وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کے ہم زلف بھی ہیں لیکن اس کے باوجود چوہدری سالک کے بھائی چوہدری شافع حسین اپنے والد چوہدری شجاعت حسین اور پھوپھا چوہدری پرویز الہٰی کی طرح تجربہ کار سیاستدان بن کر عملی اقدامات کرنیکی بجائے ریموٹ کنٹرول سے ہی لاہور بیٹھ کر دنوں میں صوبہ پر راج کرنا چاہتے ہیں مگر درحقیقت وہ اپنے کزن چوہدری مونس الہیٰ جیسے سیاسی داؤ پیچ نہ تو سیکھ سکے نہ ہی اپنے والد جیسی سیاسی صلاحیتں اور خوبیاں اپنا سکے
جسکا واضح ثبوت عید الاضحیٰ کے اہم موقع پر اپنے والد کے ساتھیوں اور اپنے سنگ دھڑے کیساتھ عید ملنا تو درکنار عید کی نماز کی ادائیگی بھی یہاں نہ کرنا انکی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہے
حالانکہ انکے چاہنے والوں نے ظہور پیلس کی دیواروں پر اور مختلف چوکوں پر قد آورسائن بورڈ بھی خوش آمدید کے لگوا رکھے تھے والد کے آبائی حلقےسے ایسی عدم حاضری پر دونوں بھائیوں کے اپنے سپورٹر بھی پریشان ہیں کیونکہ نہ تو خوشی کے موقع پر وہ آئے نہ ہی کشتی حادثہ میں لاپتہ ہونیوالے ضلع کے 80 خاندانوں میں سے کسی ایک خاندان کی ڈھارس بندھانے کیلئے سیاست کی دنیا میں بڑا نام رکھنے والے بڑے باپ کے دونوں بیٹوں نے آنے کی زخمت گوارہ کی
ایسے حالات میں لگتا ہے کہ وہ یا تو اندرون خانہ وہ اپنی آبائی سیٹ سے پھر دستبردار ہو چکے ہیں یا پھر وہ پاکستان مسلم لیگ ق کے جنرل سیکرٹری پنجاب کا عہدہ لینے پر ہی اکتفا کر چکے ہیں مگر چوہدری سالک حسین اگر اپنا سیاسی سفر مستقبل میں بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے والد کا نام اس شہر میں زندہ رکھنے کیلئے وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈز سے جہاں میگا پراجیکٹس ہی منظور کروا لینے چاہیں
وہیں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بننے والے اپنے قریبی عزیز سے ٹرانسفر پوسٹنگ کروانے کے علاؤہ ادھورے منصوبوں کی معیاری تکمیل کروا کر کھنڈر بنے شہر کی حالت سنوار کر اپنے خاندان کی ساکھ کو داغدار ہونے سے بچا لینا چاہیے