پاکستان کے پنجابی شاعروں نے امرتا پریتم کو بابا بلھے شاہ ‘ سلطان باھو اور وارث شاہ کے مزار کی چادریں بھیجی تھیں تو ساتھ کہا تھا “آپ وارث شاہ کی اصلی بیٹی ھیں اور ھمارے وارث کی وارث ھیں۔۔۔”
امرتا پریتم کے نزدیک ان چادروں کی اھمیت زندگی میں ملنے والے سب ایوارڈز سے زیادہ تھی،چادریں ملیں تو خوشی سے دیوانی ھو کر بولی تھیں “بڑے دنوں بعد میرے میکے کو میری یاد آئی”
31 اگست 1919کو گوجرانوالہ میں پیدا ھونے والی برصغیر کی اس عظیم پنجابی شاعرہ اور کہانی کار نے نہ صرف ادب میں ایک بلند مقام پایا، بلکہ انسانی حقوق ‘ خاص کر کے عورتوں کے حقوق کے حصول کے لئے ‘ لاکھ مخالفتوں اور الزامات کے باوجود بہت جارحانہ رویہ اپنائے رکھا
امرتا پریتم کو اپنے غیر روایتی اور غیر منافقانہ رویے کی وجہ سے کئی دفعہ معاشرے کے منافقین کی طرف سے بد کرداری کا سرٹیفیکیٹ بھی ملا۔ مگر انہوں نے ساری عمر سینہ تان کر اپنی مرضی کی زندگی جی
امرتا کو پنجاب کی آواز کہا جاتا ھے تقسیم کے وقت انسانی خون اور عورت کے جسم کی تذلیل سے جو بساند آئی انہوں نے اسے آنسو بھرے اکھروں میں ڈھال دیا اور اسی میں سے “اج آکھاں وارث شاہ نوں” کی لازوال تخلیق ھوئی، جس نے سرحد کے دونوں طرف کے دلوں کو تڑپا کر رکھا دیا۔ جب مذھب کے نام پر عورتوں کی کوکھ کو ‘ نسلوں میں ملاوٹ کے لئے استعمال کیا جا رھا تھا تو امرتا بے آوازوں کی آواز بن کر ابھری
تقسیم کی سیاسی اور جغرافیائی حقیقت جو بھی تھی، انسانی تاریخ نے آج سے پہلے کسی ایسے انسانی المیے کو جنم نہیں دیا تھا، جس میں ماں کی کوکھ سوالیہ نشان بن گئی تھی
جنگ میں مال غنیمت لوٹنے کے ساتھ ساتھ عورت کی عصمت دری قبیلوں ‘ قوموں اور خاندانوں کو نیچا دکھانے کیلئے سورمائوں کا بڑا بزدلانہ ھتھیار ھوتا ھے کیونکہ جب عورت کی عزت لٹ جائے اس کا مطلب دشمن کی ناک کٹ گئی
اونچی ناک والے معاشرے میں ناک کٹی اس عورت کو یا تو مار دیتے ھیں یا اپنانے سے انکار کر دیتے ھیں، تقسیم کے وقت “پنجر” کی “پارو” کی کہانی لکھ کر امرتا نے مظلوم عورت کی آہ کو نکلنے کا راستہ بتایا
جب امرتا نے عورتوں کی تذلیل پر وارث شاہ کو پکارا تھا تو
مذھبی سکھوں نے شور مچایا کہ؛ گورو نانک کو کیوں نہیں پکارا؟
کمیونسٹوں نے کہا؛ لینن کو کیوں نہیں آواز دی؟
امرتا کہتی ھیں “میں نے امن ‘ محبت اور آزادی کی بات کر کے دنیا کو وھی لوٹایا ھے جو میں نے پنجاب کے صوفیوں سنتوں سے لیا”
“میں نے پہلی بغاوت نانی کے باورچی خانے میں کی جہاں مسلمان ‘ ھندو اور عیسائی کے لئے تین الگ گلاس پڑے تھے، میں نے احتجاج کیا اور ان میں چوتھے گلاس کی طرح شامل ھو گئی اور ھم چاروں نانی سے لڑ پڑے ۔۔۔” (امرتا)
نوٹ : یہ تحریر کالم نگار روبینہ فیصل Rubina Faisal – Writer کے کالم “دستک” سے ماخوذ ھے۔