کوئی آواز بنے’ امید بنے ! بشارت لودھی کے قلم سے
مزاج میں رجائیت پسند ہوں، مجھے روشن پہلو زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور کچھ یہ بھی ہے کہ تاریک یا حوصلہ شکن پہلوؤں سے گریز کرتا ہوں،
پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ پر یقین رہا ہوں کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور کسی وقت بھی کوئی لیڈر صورتحال کو سنبھال لے گا مگر پتہ نہیں کیوں اب مایوسی سی پیدا ہورہی ہے ایک طرف بدعنوان اور بدمعاش اشرافیہ ہے جو ریاست کو نچوڑ رہی ہے
دوسری طرف بکھرئی ہوئی مفلوک الحال عوام ،فوج، بیورو کریسی اور سیاست دانوں نے مافیاز کے ساتھ مل کر کروڑوں لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی ہےمجرموں کا سب کو پتہ ہے لیکن ہر مجرم کی اپنی پاور بیس ہے، طاقت کا نیٹ ورک ہے اور تعلقات کا سلسلہ مسلح مافیا کی طرف جا نکلتا ہے
جن خونخوار مجرموں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا وہ غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں، ان کے بچے اور سرمایہ پہلے ہی باہر پڑا ہے، انہیں پہلی فلائٹ پکڑ کر باہر جاتے دیر نہیں لگے گی۔
پیچھے رہ جائے گا بکھرا ہوا ہجوم ۔۔۔۔کہاں مرگئے ہیں سارے بہروپئے لیڈر اور ان خوشامدی حواری ۔۔ملک زخم زخم ہے ، عوام بلبلا رہے ۔ کہیں سے کوئی لیڈر اٹھے ،کوئی آواز بنے کوئی امید بنے !