الیکشن کمیشن نے 11 فروری کو ملک میں عام انتخابات کی تاریخ دے دی
اسلام آباد: 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے 11 فروری کو ملک میں عام انتخابات کی تاریخ دے دی۔
90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن حکام، اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ اپنی استدعا کو صرف ایک نقطہ تک محدود کروں گا، استدعا ہے کہ الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہیے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے پیپلزپارٹی کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی ہے، انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے سوال کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں؟، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ میرا نہیں خیال کوئی اس کی مخالفت کرے گا، اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے؟، جس جواب اٹارنی جنرل نے انکار میں دیا۔
وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 58 اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ مشورہ لینا ضروری نہیں ہے، صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے کہ وہ تاریخ دے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دے دی ہے تاہم الیکشن کمیشن نے اس پر کہا کہ یہ صدر کا اختیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہ خط دکھا سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے، چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟، اس پر وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیا۔