چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم نے نیشنل پارک کو تحفظ دینے کےلیے یہ فیصلہ دیا۔
نیشنل پارک ایریا میں تجارتی سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی جھونپڑی بنالے تو فوراً گرادی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے ملک تباہ ہوگیا لیکن یہاں مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے، چھوٹا سا کھوکھا بنانےکی اجازت ملی لیکن بڑے بڑے محل بنا دیے گئے۔
دوران سماعت وزارت دفاع کی جانب سے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈیئر (ر) فلک ناز عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت نے میرے متعلق جو ریمارکس دیے اس کی وجہ سے مجھے دلی دکھ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل ہونا چاہیے، کورٹ مارشل کا فوج میں پورا طریقہ کار ہے، ایک جنرل کی رائے پر بھی کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا۔
ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع نے یہ بھی کہا کہ کورٹ مارشل کےلیے پورا قانونی طریقہ کار موجود ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریمارکس پر نہیں جو عدالتی فیصلے میں لکھا ہوا ہے، آپ اُس پر بات کریں۔ اس پر فلک ناز نے کہا کہ فیصلے میں میری کم علمی کا ذکر کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بذریعہ وفاقی حکومت اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا جس پر نظرثانی بھی دائر نہیں کی گئی۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع فلک ناز کو اپنی فیملی سے متعلق بات کرنے سے روک دیا اور مکالمے میں کہا کہ لگتا ہے آپ اخبارات میں سرخیاں لگوانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل پارک ایریا میں ہر جگہ ریسٹورنٹ بن گئے تو لینڈسلائیڈنگ سے اسلام آباد متاثر ہوسکتا ہے۔
اس دوران رہائشی فلیٹس کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ 1996 میں ہمیں 53 سال کےلیے زمین لیز پر دی گئی تھی، ہائیکورٹ بینچ راولپنڈی نے لیز منسوخی کو دوبارہ بحال کیا۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ہائیکورٹ بینچ راولپنڈی میں فیصلہ دینے والے جج کا نام کیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت جسٹس نواز عباسی نے کیس کا فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہی جج ہیں جنہوں نے ایک فیصلے میں کہا تھا ججز کو پلاٹس ملنے چاہئیں، پہلے بھی بہت بدنامی ہوچکی،اب ان معاملات سے عدالتوں کو دور رکھیں، ہم نے نیشنل پارک کو تحفظ دینے کےلیے یہ فیصلہ دیا ہے۔