اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ستر صفحات پر مشتمل مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ تحریر کیا۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین اور جمہوریت کی بنیاد عوام کی رائے اور مرضی ہے. جمہوریت کی بنیاد صاف اور شفاف انتخابات پر ہے. پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا ہے. الیکشن میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے.فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے تیرہ میں آٹھ ججوں نے اکثریتی فیصلہ 12 جولائی کو دیا تھا، 39ارکان کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا تھا اور 41ارکان کو کسی بھی جماعت میں شمولیت کے لئے پندرہ روز دیے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے 41 ارکان نے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی وابستگی کے حلف نامے جمع کروادیے تھے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے. الیکشن کمیشن نے 41ارکان کے پارٹی وابستگی سے متعلق سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ رکھی ہے. آئین صرف ایک حکومتی بلیوپرنٹ نہیں. بلکہ عوام کی حاکمیت یقینی بنانے پر مبنی دستاویز ہے. آئین سیاسی جماعت بنانے اور عوام کی اس میں شمولیت کا حق دیتا ہے. عوام کی نمائندگی ہی دراصل جمہوریت ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر آٹھ ججز 41ارکان کی پارٹی وابستگی پر ان کے پی ٹی آئی ارکان ہونے کی وضاحت کرچکے ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان کے پی ٹی آئی کے سرٹیفکیٹ تاحال جاری نہیں کیے ہیں، الیکشن کمیشن نے اسپیکر کے خط کی بنیاد پر پی ٹی آئی ارکان کو پارٹی سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے گریز کیا ہے۔تفصیلی فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے مطابق ان کے ووٹرز نے ان کے آزاد ارکان کو بھی ووٹ پارٹی کی وجہ سے دیا تھا، جو سیاسی جماعت ایک مرتبہ رجسٹر ہوجائے اسے ڈی لسٹ کرنے کا الیکشن کمشین کو اختیار نہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہیں. یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ پارلیمانی جمہوریت میں اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے. جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں. انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہوگئے۔فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے. عدالت اور الیکشن کمشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے۔اکثریتی فیصلے میں عدالت نے بلے کا نشان چھیننے کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پارٹی کے اندرونی معاملے پر شہریوں کے ووٹ دینے کے بنیادی حقوق کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ بلے کے نشان کا فیصلہ نظرثانی میں زیرالتواء ہے اس لئے اس پر رائے نہیں دے سکتے۔سپریم کورٹ نے الیکشن رولز کی شق 94 کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے. رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں. انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو۔فیصلے کے مطابق رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے. انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا الیکشن کمشین کا فیصلہ غیرآئینی قرار دے دیا اور پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کے ریٹرننگ افسران کے فیصلے بھی غیرآئینی قرار دے دیے۔فیصلے کے مطابق الیکشن کمشین نے بلے کے نشان والے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، انتخابی نشان سے محروم جماعت کو امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکا جا سکتا، انتخابی نشان مختلف ہونے پر بھی پارٹی کے امیدواروں کو آزاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔سپریم کورٹ نے بیرسٹر گوہر علی خان کے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس بھی درست قرار دے دیے اور الیکشن کمیشن کو چیمبر سے جاری کردہ وضاحت بھی فیصلے کا حصہ بنا دی۔اکثریتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چیمبر سے جاری وضاحت میں کسی فریق کے دلائل سننے کی ضرورت پیش نہیں آئی. مختصر حکم نامہ واضح تھا پھر بھی الیکشن کمیشن کی درخواست پر وضاحت جاری کی گئی۔