امریکہ نے پیر کے روز کہا کہ یہ روس ہی ہے جو شمالی کوریا کے فوجیوں کو تعینات کر کے یوکرین میں تنازعہ کی شدت بڑھا رہا ہے۔ اس سے پہلے کریملن نے خبردار کیا تھا کہ کئیف کی افواج کو امریکی ساختہ ہتھیاروں کے ساتھ روس کے اندرونی علاقوں تک حملہ کرنے کی اجازت دے کر واشنگٹن نے جنگ میں اپنی شمولیت میں اضافہ کیا۔محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بریفنگ میں اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ نے حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن یہ اعادہ کیا کہ امریکہ “ہمیشہ ان صلاحیتوں کو ضرورت کے مطابق بنائے گا جو ہم یوکرین کو فراہم کرتے ہیں جب ایسا کرنا مناسب ہو گا۔”رائٹرز نے اتوار کو اطلاع دی کہ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا اور اس اقدام کے بارے میں امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تنازعہ میں شمالی کوریا کے فوجیوں کی موجودگی کا جواب تھا۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کو کہا، سبکدوش ہونے والی انتظامیہ حالات کو مزید خراب کر رہی ہے اور یوکرین میں تنازعہ کو بڑھانا چاہتی ہے۔اقوامِ متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے میڈیا اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے پیر کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ نے “زیلینسکی کو روس کے اندرونی علاقوں تک حملہ کرنے کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال کی تباہ کن اجازت” جاری کی تھی۔انہوں نے کہا، “کئی وجوہات کی بنا پر جو بائیڈن کے پاس تو شاید کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا لیکن ہم برطانیہ اور فرانس کی قیادت کی عاقبت نااندیشی پر حیران ہیں۔”نیبنزیا نے مزید کہا، “وہ سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے بے چین ہیں اور نہ صرف اپنے ممالک بلکہ پورے یورپی خطے کو وسیع پیمانے کی کشیدگی کی طرف گھسیٹ رہے ہیں جس کے سنگین نتائج ہوں گے۔”شمالی کوریا کے 11,000 فوجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو بقول امریکہ روس کے علاقے کرسک میں یوکرینی افواج کے ہمراہ تعینات کیے گئے ہیں، ملر نے پیر کو کہا تھا کہ بار بار تنازع کی شدت میں اضافہ روس نے کیا تھا۔انہوں نے کہا، “یورپ کے اندر واقع ہونے والے ایک تنازعے میں ایشیائی فوج کو لے آنا روس کی طرف سے کشیدگی میں ایک بڑا اضافہ ہے۔” اس پر امریکی ردِ عمل کے حوالے سے ملر نے مزید کہا، “ہم وہ کرتے رہیں گے جو روس سے اس کی کارروائیوں پر جواب طلبی بشمول اس کے تنازعہ بڑھانے والے اقدامات اور شمالی کوریا سے اس کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے لیے جواب طلبی کے لیے مناسب ہو ۔”برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اقوامِ متحدہ میں صحافیوں کو بتایا کہ شمالی کوریا کے فوجیوں کی موجودگی ایک “نہایت بڑی کشیدگی” تھی اور انہوں نے یوکرین کو ممکنہ مضبوط ترین پوزیشن میں لانے کا عہد کیا۔